Speech Notes - Urdu


راکٹ کو جب خلا میں بھیجا جاتا ھے کو تو زمین سے لے کر 12 کلومیٹر کی بلندی پر پہنچنے تک اس کا 95 فیصد فیول خرچ ھو جاتا ھے , جب وہ خلا میں اپنے مدار میں چکر لگا رھا ھوتا ھے تو اسے صرف 0.16 فیصد فیول کی ضرورت پڑتی ھے
پرانی عادات کو چھوڑنا نئی عادات کو اختیارکرنا راکٹ کی مثال میں پہلے 12 کلومیٹر کی طرح بڑا زورآزمائی کا کام ھوتا ھے اور مذھبی نقطۂ نظر سے اس عادات کے بدلنے کے کام کو ھجرت اور جہاد کا درجہ دیا گیا ھے.
 ریسرچ کرنے والے بتاتےھیں کہ 99.9% لوگ اپنی عادات کا جائزہ اس لیے نہیں لیتے کہ انہیں اس بات سے خوف آتا ھے کہ انہیں اپنی یہ عادات کسی وجہ سے بدلنی نہ پڑ جائیں. اور وہ ساری زندگی اسی روایتی روٹین میں گزار دیتے ھیں.
حالات بدلنے کے ساتھ نئی ٹکنالوجی آنے کے ساتھ انسان کے لیے ضروری ھوتا ھے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اپنی عادات کا جائزہ لیتا رھے اور ماحول کی مناسبت سے خودکو تیار کرے اور تیار رکھے
جاپانیوں نے اچھی مثال قائم کی ھے کہ ھر فرد کو 100% مکمل کام کرنے کا عادی بنایا ھے اور اس کے لیے ان کا سادہ سا فارمولا ھے کہ اگر سو بندہ ایک لائن پر کام کر رھا ھے اور ھر فرد 100% کام مکمل کرے گا تو وہ چیز 100% بن جائے گی -
جاپانی لوگوں نے یہ طےکیا ھے اور اس کا کامیاب تجربہ کیاھے کہ جب ایک بندہ 80 فیصد 90 فیصد 95 فیصد 99 فیصد یا 99.9 فیصد کام کرسکتا ھے تواس کے لیے 100 فیصد کام کرنا بھی ممکن ھے -
جاپانی معاشرے میں نوکری سے نکالنے کا رواج نہیں ھے وھاں صرف کام دیا جاتا ھے وھاں غلطی کو چھپانا معیوب سمجھا جاتا ھے اگر کوئی غلطی ھوگئی ھے تو آپ بتائیں . ایسا کرنے پر آپ کی حوصلہ افزائی کی جائےگی . جب ایک بندہ 100% کام کرنے کے لیے ماھر بن جاتا ھے پھر وہ اپنے ساتھ والوں کو سکھانے کے قابل بھی ھوجاتاھے -
کوشش کے باوجود اگر کوئی کامیاب نہیں ھوسکتا تو جاپانی لوگ معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دیتے ھیں . وھاں یہ عام رواج ھے کہ محلے کی سطح پر کام کرنے کی جگہ پر جاپانی ایک دوسرے کابہت خیال رکھتے ھیں . کہ کہیں ان کا ساتھ والا بندہ کسی دن مردہ حالت میں نہ پایا جائے

کمیونیکیشن سکلز کے بارے میں جب ھم بات کرتے ھیں. تواس میں کمیونیکیشن
 کا مطلب ھے اپنے خیالات کا - اپنے دل کی بات کو شیئر کرنا اور دوسروں تک پہنچانا. اور سکل کا مطلب ھے جس کو سیکھا جاسکے - اور پھر سیکھنےکی کوئی حد نہیں ھے جتنا زیادہ آپ کسی سکل کو سیکھتے جاتے ھیں آپ کو اور زیادہ گہرائی نظر آ نے لگتی ھے - خاص طور پر کمیونیکیشن کے حوالے سے امام علی علیہ السلام کا وہ فرمان کہ کبھی بولنا ضروری ھوتا ھے کبھی خاموش رھنے میں عافیت ھوتی ھے. اب اس باریکی کو سمجھنے کے لیے کہ کب بولنا ھے کب خاموش رھنا ھے آپ کی کمیونیکیشن سکلز کی مہارت اور
 ایکسپرٹیز آپ کی بڑی مدد کرتی ھے. اگرآپ ماھر نہیں ھیں تو عین ممکن ھے کہ آپ الٹ کر جائیں - اور آیت قرآنی و قولو لناس حسنا اورآپ لوگوں سے اچھے طریقے سے بات چیت کریں . اس آیت پر عمل کرنا بھی مشکل ھو سکتا ہے ذاتی نشوونما میں بھی
کمیونیکیشن سکلز کا انسانی زندگی میں بڑا دخل ھے کہ جب آپ کسی دوسرے کو اپنی بات اچھی طرح سے سمجھانے کے قابل ھوتے ھیں تو آگے سے آپ کو بھی اچھا جواب ملنے کے امکانات زیادہ ھو جاتے ھیں -
سب سے عظیم جہاد ھاتھ سے طاقت سے ظلم کا راستہ روکنا اور حق کا ساتھ دنیا ھے -
جہاد کا دوسرا درجہ زبان سے حق اور انصاف کے قیام کے لیے کوشش کرنا ھے لیکن کبھی کبھی زبان کا استعمال جب صحیح طریقے سے کرنا آتا ھو تو یہ پہلے درجے کا جہاد بھی بن جاتا ھے -
تیرے درجے کا جہاد دل سے برا یا اچھا جاننا ھے لیکن یہاں کی ترتیب میں بھی کبھی اچھا سوچنا پہلے نمبر پر آ جاتا ھے - کیونکہ سوچ سے ھی الفاظ بنتے ھیں. اور الفاظ سے انسان کا کردار پہچانا جاتا ھے جو انسان کے اندر ھوتا ھے وھی اس کی زبان پر آتا ھے -

کوئی صاحب اپنی تقریر میں ذکر کر رھےتھے کہ فلی مارکیٹ کا تصور ھجرت مدینہ کے بعد جناب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو دیا تھا - کیونکہ بڑے بڑے سارے کاروبار اس وقت مدینہ میں یہودیوں کے پاس تھے آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ آپ تھوڑا تھوڑا سامان رکھ کر بیچنا شروع کر دیں -
آپ کے اخلاق اور ایمانداری کو دیکھ کر عام لوگ خود ھی آپ کی طرف مائل ھونے لگیں گے. اور آپ کا کاروبار چل پڑے گا -
حضرت محمد ﷺ نے تجارت اور کاروبار کے حوالے سے ایسے اصول بتائے جو چھوٹے دکان داروں اور خود روزگار کرنے والوں کے لیے انتہائی مفید ہیں۔ آپ ﷺ نے نہ صرف تجارت کو ایک جائز اور بابرکت ذریعہ معاش قرار دیا بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ آپ ﷺ کے دور میں بازار چھوٹے دکان داروں اور تاجروں کا مرکز ہوتے تھے، اور آپ نے ہمیشہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔

چھوٹے دکانوں کے حوالے سے آپ ﷺ کی تعلیمات:
1. تجارت کی ترغیب:
آپ ﷺ نے فرمایا:
"سب سے پاکیزہ کمائی وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں کی محنت سے کمائے۔"
(مسند احمد)
اس حدیث میں آپ ﷺ نے محنت اور ذاتی کوشش سے کمائی کی اہمیت پر زور دیا، جو چھوٹے کاروبار کرنے والوں کے لیے ایک رہنما اصول ہے۔

2. بازار قائم کرنا:
مدینہ منورہ میں آپ ﷺ نے ایک آزاد بازار قائم کیا جہاں ہر شخص آزادانہ طور پر اپنی تجارت کر سکتا تھا۔ آپ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ چھوٹے تاجروں کو کسی قسم کی رکاوٹ یا دباؤ کا سامنا نہ ہو۔

3. قیمتیں مقرر کرنے سے انکار:
جب لوگوں نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ قیمتیں مقرر کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ ہی قیمتیں مقرر کرنے والا ہے، وہی رزق کو تنگ یا کشادہ کرتا ہے، اور وہی سب سے بہتر رازق ہے۔"
(سنن ابو داؤد)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے چھوٹے تاجروں کو آزادانہ کاروبار کا موقع فراہم کیا، تاکہ منصفانہ مقابلہ ہو اور کوئی دباؤ نہ ہو۔

4. ذخیرہ اندوزی کی ممانعت:
آپ ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کو سختی سے منع کیا تاکہ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا نہ ہو۔ آپ نے فرمایا:
"جو شخص ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، وہ گناہگار ہے۔"
(صحیح مسلم)
اس اصول نے چھوٹے تاجروں کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ منصفانہ کاروبار کریں اور بڑے تاجروں کی اجارہ داری سے محفوظ رہیں۔

5. ناپ تول میں انصاف:
آپ ﷺ نے چھوٹے دکان داروں کو حکم دیا کہ وہ ناپ تول میں انصاف کریں اور کسی قسم کی دھوکہ دہی نہ کریں۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا:
"ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔"
(سورۃ ہود: 85)

چھوٹے دکانداروں کے لیے سبق:
آپ ﷺ کی تعلیمات چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ نے ہمیشہ ایمانداری، دیانت داری، اور انصاف پر زور دیا اور ایسے کاروباری ماحول کی حمایت کی جو سب کے لیے منصفانہ ہو۔
حوالہ جات:
1. مسند احمد
2. سنن ابو داؤد
3. صحیح مسلم
4. قرآن پاک (سورۃ ہود: 85)

یہ اصول آج کے دور میں بھی چھوٹے دکان داروں اور کاروباری افراد کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ایک منصفانہ اور پائیدار معیشت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

The Story of Stone Soup
https://14knowledge14.blogspot.com/2024/11/the-story-of-stone-soup.html

Healthy Habits, 95% fuel rocket uses in the first 12 km, Every Human is Carrying Universe, Journal 5 minutes daily
https://14knowledge14.blogspot.com/2024/11/healthy-habits-95-fuel-rocket-uses-in.html
قرآن مجید کے حوالے سے جب سبت کی بات ہوتی ھے تو دماغ کی ایسی ٹرنینگ کر دی گئی ہے کہ فوراً یہودیوں کا خیال ذھن میں آتا ھے کہ انہوں نے احکام الہیٰ کی نافرمانی کی ان پر ایسا عذاب آیا کہ ان کی شکل تبدیل کر کے بندر کی طرح بنا دی گئی - سبت والی آیت ھو یا قرآن مجید کی دوسری آیات ھوں . ان کا ترجمہ اور تشریح ایسے انداز سے کی جاتی ھے کہ وہ آیت یا تو دوسرے فرقے کی مخالفت میں نظر آئے یا پرانے لوگوں کا قصہ ھی بن جائے اور آیت میں جو اصل حکم ھے کہ انسان کے لیے لازم ھے کہ وہ احکام الہٰی کی مخالفت نہ کرے ورنہ اس کی شکل بھی تبدیل ھو سکتی ھے
پھراس سلسلے میں بہت ساری احادیث کا سہارا بھی لیا جاتا ھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ میری امت کی شکل تبدیل نہ ھو.
حکم کی مخالفت کی وجہ بظاھر جو نظر آتی ھے - وہ ھے آسانی کی طرف رغبت کہ سبت والے دن مچھلیاں پکڑنا آسان تھا. اور حکم خداوندی کے مطابق اس دن مچھلیاں پکڑنے پر پابندی تھی.
غور کیجیے کہ اس آیت میں پیغام کیا ھے میسیج کیا ھے کہ آسانی کی طرف رغبت نہیں کرنی - محنت اور مشقت والا راستہ اپنانا ھے.
کیا یہ پیغام دنیا کے تمام بنی نوع انسان کے لیے نہیں ہے کہ انسان خود کبھی اپنا پسینہ بہائے اور جہاں تک ممکن ھو سکے اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی محنت مشقت کرنے اور پسینہ بہانے کی ترغیب دے.
آیات قرآنی کے حوالے سے ترجمہ اور تشریح کرتے وقت ایسی چیزوں کو پیش کرنا جو موجودہ طرزِزندگی سے متعلق نہ ھوں اور ان پہلووں پر روشنی نہ ڈالنا جو عین متعلق ھو سکتے ھیں. آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ھو سکتی ھے -
انسانی تاریخ میں چند نام ایسے ھیں جنہوں نے اس فارمولے پر عمل کیا اور قدرت نے انہیں نام اور مقام دیا.

دنیا میں کچھ ایسی قومیں بھی ھیں جنہوں نے اپنے افراد کو % 100 ذمہ داری نبھانے کے لیے تربیت دی اور انہیں اس میں کامیابی بھی ملی - جیسے جاپانی قوم کی مثال آپ کے سامنے ھے - جاپانی افراد پہلے خود پر توجہ دیتے ھیں پھر ساتھ والے دوسرے لوگوں کو کامیاب بنانے میں مدد کرتے ھیں.

جب ھمارے کچھ صاحبِ نظر اور بصیرت رکھنے والے افراد نے مشاھدہ کیا کہ نیو امیگرنٹ لوگ کس طرح سے عدالتوں میں اور پولیس کے سامنے پھنستے ھیں اورپھر سالہا سال اس روایتی عدالتی نظام کی چکی میں پستے رھتے ھیں کلچر کے فرق اور زبان کے نہ سمجھنے کے باعث یہ لوگ اپنا مسئلہ صحیح طور پر بیان بھی نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے مسائل اور بھی زیادہ پیچیدہ ھوجاتے ھیں اس مسئلے کے حل کےلیے صلح اور صفائی کی غرض سے ایک بڑی کامیاب کوشش کا ذکر بھی کرتے ھیں کہ پہلے تو 99% عدالت میں اور پولیس کے پاس جانے کی ضرورت ھی نہیں پڑتی اور اگر سسٹم کی مدد لینی بھی پڑے تو بڑے حساب کتاب اور سمجھ بوجھ کے طریقے سے رسائی کی جائے اس سے لوگوں کا بہت سارا وقت سکون اور پیسہ بچا ھے

علامہ اقبال کے درد بھرے جملے اوراشعار یہاں پر حوالے کے طور پر پیشِ خدمت ھیں. اپنے والد صاحب سے گفتگو کے دوران علامہ صاحب فرماتے ھیں .
اھلِ وطن پر عجمی اثرات اس قدر غالب آ چکے ھیں کہ وہ زھر کو آبِ حیات سمجھتے ھیں 
فرماتے ھیں

ہاتھ بے زور ہيں’ الحاد سے دل خوگر ہيں
امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے

جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن’ تم ہو

جلوئہ طور تو موجود ہے’ موسی ہی نہيں

فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں

قلب ميں سوز نہيں’ روح ميں احساس نہيں

واعظ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

يوں تو سيد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو

ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا
اس کے آئينۂ ہستی ميں عمل جوہر تھا

تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم

خودکشی شيوہ تمھارا، وہ غيور و خود دار

آج بھی ہو جو براہيم کا ايماں پيدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پيدا

نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا

ان جملوں اور ان اشعار میں سب اھلِ وطن کو مخاطب فرمایا ھے. فرقوں اور نسلوں کی تفریق اور تقسیم میں پڑے بغیر.
اس وقت جب مؤثر کمیونیکیشن کا بہترین دور ھے
 عالمی سطح پر پڑھےلکھے لوگوں کی ایک کونسل اور باڈی کی تشکیل کی ضرورت ایک عام آدمی محسوس کرتا ھے. جو ایسے کام کرے جو عام طور پر نہیں کیے جارھے. جیسے کمیونٹی لیول پر معاشرے کے ایسے افراد کی حوصلہ افزائی جو غیرمعمولی کارکردگی رکھتے ھیں.
اور یہاں پر میں ایک امریکن ریسرچ کا حوالہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ھوں - جس کا عنوان تھا کہ دنیا میں سب سے مہنگا زمین کا ٹکڑا کون سا ھے - تو سب علاقوں پر ایک ایک کر کے غوروفکر کیا گیا - امیر ممالک کے امیر شہروں کے ڈاؤن ٹاؤن - پھر مڈل ایسٹ کا زیرزمین تیل اور افریقہ کے قیمتی پتھروں والے علاقے - لیکن ساری ریسرچ کا نتیجہ یہ طے ھوا کہ قبرستان سب سے مہنگا زمین کا ٹکڑا ھیں. کہ بہت سارے لوگ اپنے شاندار خیالات کو ساتھ لے کر دفن ھو گئے. یا تو ان میں اتنی جرأت اور ھمت نہ تھی کہ وہ ظاھر کرسکتے شیئر کرسکتے. یا کسی نے ان تک رسائی نہ کی انہیں دعوت نہ دی. انہیں شوق نہ دلایا. ان سے دل کی بات نہ پوچھی.
آئیے ھم مل کر عہد کرتے ھیں. کہ آئندہ ھم کسی کو اس طرح سے دفن نہیں ھونے دیں گے.
مذھبی رسومات ثقافتی پروگرام ھم سب لوگ ان پروگراموں سے اور ان سرگرمیوں سے کتنے مطمئن ھیں - سو سال پہلے جو رسومات کارنگ تھا - اس میں کوئی فرق نہیں آیا - جب کہ دنیا کی ضروریات اور تقاضے بہت زیادہ تبدیل ھوچکے ھیں. معاشرے کی ایک قلیل تعداد نے اپنے مالی مفادات کو ان پروگراموں کے ساتھ منسلک کیا ھوا ھے. اورعوام کی اکثریت کا بس صرف استحصال ھورھا ھے. ماھرین کا یہ بین الاقوامی نیٹ ورک ان معاملات کا جائزہ لے اور اپنی سفارشات مرتب کرے. قرآن مجید میں واضح احکام موجود ھیں کہ جب تمہیں کوئی نعمت ملتی ھے تو آپ نے اترانا نہیں غرور و تکبر نہیں دکھانا. دکھاوا نہیں کرنا. اور جب کوئی نعمت تمہارے سے زائل ھو جائے تو حد سے زیادہ غمگین نہیں ھونا. صرف انفرادی طور پر نہیں جب اجتماعی طور پر ان احکامات کی کھلی خلاف ورزی ھوتی ھے کو اھل ایمان کی کچھ ذمہ داری تو بنتی ھے.
اس عمل کا حصہ بن جائیں یا اس کے سدباب کے لیےکوشش کریں.
یہ بھی عام مشاھدے کی بات ھے کہ جب کبھی کسی نوجوان کو کسی عالم فاضل سے کوئی سوال پوچھناپڑا. تو نوجو ان عام طور پر عالم فاضل کے جواب سے مطمئن نہیں ھوتے. اور کبھی کبھی تو ان عالم فاضل حضرات سے آپ کسی بھی قسم کے جواب کی توقع کرسکتے ھیں. کیونکہ وہ اپنی علمی برتری کی دھاک بٹھانے اور قائم رکھنے کی پوری کوشش کر گزرتے ھیں. کہ دوبارہ کوئی سوال کرنے سے پہلے کئی بار سوچ لے. 
بیٹا! بس اپنے کام سے کام رکھو. ان باتوں کی گہرائی میں جانے سے آپ کو کچھ فائدہ نہیں ھوگا.
قرآن مجید کے حوالے سے جب سبت کی بات ہوتی ھے تو دماغ کی ایسی ٹریننگ کر دی گئی ہے کہ فوراً یہودیوں کا خیال ذھن میں آتا ھے کہ انہوں نے احکام الہیٰ کی نافرمانی کی ان پر ایسا عذاب آیا کہ ان کی شکل تبدیل کر کے بندر کی طرح بنا دی گئی 
سبت والی آیت ھو یا قرآن مجید کی دوسری آیات ھوں. ان کا ترجمہ اور تشریح ایسے انداز سے کی جاتی ھے کہ وہ یا تو دوسرے فرقے کی مخالفت میں نظر آئے یا پرانے لوگوں کا قصہ ھی بن جائے اور آیت میں جو اصل حکم ھے کہ انسان کے لیے لازم ھے کہ وہ احکام الہٰی کی مخالفت نہ کرے ورنہ اس کی شکل بھی تبدیل ھو سکتی ھے

پھراس سلسلے میں بہت ساری احادیث کا سہارا بھی لیا جاتا ھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ میری امت کی شکل تبدیل نہ ھو.
حکم کی مخالفت کی وجہ بظاھر جو نظر آتی ھے - وہ ھے آسانی کی طرف رغبت کہ سبت والے دن مچھلیاں پکڑنا آسان تھا. اور حکم خداوندی کے مطابق اس دن مچھلیاں پکڑنے پر پابندی تھی.

غور کیجیے کہ اس میں پیغام کیا ھے کہ آسانی کی طرف رغبت نہیں کرنی - محنت اور مشقت والا راستہ اپنانا ھے.
 یہ پیغام دنیا کے تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے کہ انسان خود بھی اپنا پسینہ بہائے اور جہاں تک ممکن ھو سکے اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی محنت مشقت کرنے اور پسینہ بہانے کی ترغیب دے. انسانی تاریخ میں چند نام ایسے ھیں جنہوں نے اس فارمولے پر عمل کیا اور قدرت نے انہیں نام اور مقام دیا

غوروفکر کرنا خالق ومالک کی عطا کردہ کتنی بڑی صلاحیت ھے یہ صلاحیت انسان کی مدد کرتی ھے کہ وہ اپنے مثالی مقصد زندگی کی پہچان کرسکے
غوروفکر کا ایک لمحہ اور پھر اس کے نتیجے میں کیا گیا فیصلہ انسان کی تقدیر بدلنے کا کام کرسکتا ھے.

Comments

Popular posts from this blog

Mobile phone robbed from food delivery person, then climbed on a tall building, and hanged himself

پھوپھی اور ماموں کے کردار کا موازنہ Comparison of the Roles of Paternal Aunt (Phuphi) and Maternal Uncle (Mamu)

Abdullah ibn Umm Maktum, a blind companion of Prophet Muhammad (PBUH); English and Urdu