Graveyard, Appreciation, Allama Iqbal, Being 100% Present

 قبرستان سب سے قیمتی جگہ ھے. امریکہ میں ایک ریسر چ ھوئی تھی کہ زمین کا سب سے قمیتی ٹکڑا کون سا ہے. مہنگے شہروں کے ڈاؤن ٹاؤن مڈل ایسٹ کا تیل سے بھرا علاقہ افریقہ کے وہ علاقے جہاں قیمتی ھیرے جواہرات پائے جاتے ھیں. سب پر ایک ایک کر کے غور کیا گیا نتیجہ کے طور پر جو جگہ فائنل ھوئی وہ قبرستان کا علاقہ تھا. کہ لوگ بڑے بڑے آئیڈیاز لے کر یہاں دفن ھو گئے. انہوں نے ھمت نہ کی کوشش نہ کی جرأت نہ دکھائی کہ وہ اپنے آئیڈیاز کو شیئر کرتے. اور ان کے قریبی لوگوں نے بھی ان کی اس سلسلے میں کوئی حوصلہ افزائی نہ کی کبھی کبھی انسان اس انتظار میں رھتا ھے. کہ کوئی دوسرا اس سے پوچھے تو وہ اپنے دل کا حال بیان کرے.

آپ نے ایک بہت گہری اور فکر انگیز بات بیان کی ہے۔ قبرستان کو زمین کا سب سے قیمتی ٹکڑا قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بہت سے لوگ اپنی زندگی کے عظیم خیالات، خواب، اور صلاحیتیں اپنے ساتھ لے کر دفن ہو جاتے ہیں۔

اس کا مطلب:

نہ عملی اور ہمت کی کمی: بہت سے لوگ اپنی زندگی میں جرات یا ہمت نہیں کرتے کہ اپنے خیالات کو عملی شکل دیں یا اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں۔ وہ کسی نہ کسی وجہ سے، جیسے خوف، ناکامی کا ڈر، یا حالات کی مشکلات، اپنے خوابوں کو دبا دیتے ہیں۔

معاشرتی حوصلہ افزائی کی کمی: اکثر اوقات، لوگ اپنے خیالات یا جذبات کو اس لیے چھپا لیتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے قریبی لوگوں کی طرف سے حوصلہ افزائی یا مدد نہیں ملتی۔ وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی ان سے ان کے خیالات یا خوابوں کے بارے میں پوچھے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

ضائع ہونے والے امکانات: قبرستان کو "قیمتی جگہ" کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ایسی لاتعداد صلاحیتیں، اختراعات، اور آئیڈیاز دفن ہیں جو اگر دنیا کے سامنے آتیں، تو شاید دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آتیں۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کی صلاحیتوں اور مواقع کو ضائع نہ کریں۔

سبق:

اپنے خوابوں کو زندہ رکھیں: جو آئیڈیاز اور خواب آپ کے دل میں ہیں، ان پر عمل کریں۔ چاہے راستہ مشکل ہو، ان کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال میں لائیں۔

دوسروں کی حوصلہ افزائی کریں: اگر آپ کے آس پاس کوئی شخص اپنے خیالات یا خوابوں کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے، تو اس کی مدد کریں اور اسے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ دیں۔

عملی قدم اٹھائیں: صرف خیالات رکھنے سے کچھ نہیں ہوگا، ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔

یہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ زندگی محدود ہے، اور اس وقت کو ضائع کرنا یا اپنے خوابوں کو دفن کر دینا بہت بڑا نقصان ہے۔

You’ve shared a profound and thought-provoking idea. Referring to the graveyard as the most valuable piece of land signifies that it is the place where countless people take their greatest ideas, dreams, and potential with them when they pass away.

Meaning:

Inaction and Lack of Courage: Many people in their lives lack the courage or determination to bring their ideas to life or turn their dreams into reality. For various reasons—such as fear, the dread of failure, or challenging circumstances—they suppress their dreams.

Lack of Encouragement from Society: Often, people keep their ideas and emotions hidden because they don’t receive encouragement or support from those around them. They wait for someone to ask them about their thoughts or dreams, but that moment never comes.

Wasted Potential: Calling the graveyard a "valuable place" highlights that countless talents, innovations, and ideas are buried there. If those ideas had come to light, they could have brought significant change to the world. This also serves as a reminder not to let our potential go to waste.

Lessons:

Keep Your Dreams Alive: The ideas and dreams in your heart are valuable. Work on them, even if the path is difficult. Recognize their importance and make full use of your abilities.

Encourage Others: If someone around you wants to share their thoughts or dreams, support and encourage them to turn their aspirations into reality.

Take Action: Ideas alone are not enough; taking action to implement them is crucial.

This serves as a reminder that life is finite, and wasting it or burying your dreams is a great loss. We should strive to make the most of our time and talents while we still can.

جب کسی کمیونٹی میں آپ یہ دیکھیں کہ وہ اپنے کسی فرد کی اچھی چیز کو کوئی اھمیت نہ دیتے ھوں اور کسی اپنے فرد کی خراب چیز کو بہت زیادہ اچھالتے ھوں. اور جب اپنے کسی فرد کے متعلق کوئی اچھی یا بری چیز نہ مل سکے. تو خود سے کچھ بنا کر مشہور کر دیں تو ایسی کمیونٹی کس کیٹیگری میں آئے گی.

قبرستان سب سے قیمتی جگہ ھے. امریکہ میں ایک ریسر چ ھوئی تھی کہ زمین کا سب سے قمیتی ٹکڑا کون سا ہے. مہنگے شہروں کے ڈاؤن ٹاؤن مڈل ایسٹ کا تیل سے بھرا علاقہ افریقہ کے وہ علاقے جہاں قیمتی ھیرے جواہرات پائے جاتے ھیں. سب پر ایک ایک کر کے غور کیا گیا نتیجہ کے طور پر جو جگہ فائنل ھوئی وہ قبرستان کا علاقہ تھا. کہ لوگ بڑے بڑے آئیڈیاز لے کر یہاں دفن ھو گئے. انہوں نے ھمت نہ کی کوشش نہ کی جرأت نہ دکھائی کہ وہ اپنے آئیڈیاز کو شیئر کرتے. اور ان کے قریبی لوگوں نے بھی ان کی اس سلسلے میں کوئی حوصلہ افزائی نہ کی کبھی کبھی انسان اس انتظار میں رھتا ھے. کہ کوئی دوسرا اس سے پوچھے تو وہ اپنے دل کا حال بیان کرے.

علامہ محمد اقبال نے اپنے والد صاحب کے ساتھ ایک گفتگو میں یہ کہا.

اس کا افسوس ھے کہ مسلمانان وطن پر عجمی اثرات اس قدر غالب آ چکے ھیں. کہ وہ زھر کو آب حیات سمجھتے ھیں.

اس کا کیا مطلب ھے.

یہ جو تین

Scenarios 

اوپر بیان کیے ھیں کیا ان میں کوئی قدر مشترک ھے.

Yes, there is a clear common factor in all three scenarios:

Common Factor: Collective Apathy, Misplaced Priorities, and Destructive Behavior

First Scenario: Community Behavior

This describes a community that highlights others’ flaws rather than appreciating their qualities and even fabricates false narratives. This reflects a lack of encouragement, fairness, and constructive thinking within the community.

Second Scenario: The Graveyard as the Most Valuable Place

This highlights the flaw in individuals who fail to bring their talents, ideas, and dreams to life, instead letting them go to waste. This behavior is not only a personal loss but also detrimental to society as it prevents positive contributions.

Third Scenario: Allama Iqbal’s Concern

Allama Iqbal expressed his regret over Muslims abandoning their original Islamic values and falling under the influence of foreign (non-Islamic) traditions, mistakenly considering them beneficial.

Explanation of the Common Factor:

Lack of Constructive Thinking: In all three cases, the failure lies in individuals or communities adopting negative attitudes and not recognizing or nurturing positive qualities and ideas.

Absence of Encouragement: Whether it’s a community that discourages its members, people burying their potential, or a society misguided by foreign influences, all share a lack of appreciation for others' or their own abilities.

Misplaced Priorities and Harmful Attitudes: These scenarios illustrate how communities and individuals focus their energy on unproductive or harmful behaviors rather than fostering growth and development.

Collective Decline: All three scenarios highlight that neglecting true values, potential, and opportunities leads to individual and collective deterioration.

Conclusion:

These three scenarios serve as a reminder of the importance of adopting positive attitudes, valuing one’s own and others’ strengths, and contributing constructively to society. Without these changes, neither individual nor collective progress is possible.

 جی ہاں، ان تینوں بیانات میں ایک واضح قدرِ مشترک ہے:

قدرِ مشترک: کمیونٹی یا افراد کی اجتماعی بے حسی، غلط ترجیحات، اور غیر تعمیری رویہ

پہلا منظر: کمیونٹی کا رویہ

ایک ایسی کمیونٹی کا ذکر ہے جو دوسروں کی خوبیوں کو سراہنے کے بجائے خامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے اور یہاں تک کہ جھوٹ بھی گھڑتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی کمیونٹی میں حوصلہ افزائی، انصاف، اور تعمیری سوچ کی کمی ہے۔

دوسرا منظر: قبرستان کو قیمتی جگہ کہنا

اس میں انسانوں کی وہ خامی بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں، خیالات، اور خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے انہیں ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف انفرادی نقصان ہے بلکہ اجتماعی طور پر پوری کمیونٹی کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ وہ اپنے سماج کے لیے مثبت تبدیلی نہیں لا سکتے۔

تیسرا منظر: علامہ اقبال کی فکر

علامہ اقبال نے مسلمانوں کی حالت پر افسوس ظاہر کیا کہ وہ اپنی اصل اسلامی اقدار اور فکری رہنمائی کو چھوڑ کر غیر ضروری اثرات (عجمی اثرات) کے زیرِ اثر ہیں، جنہیں وہ غلط طور پر فائدہ مند سمجھتے ہیں۔

قدرِ مشترک کی وضاحت:

تعمیری سوچ کا فقدان: ان تمام واقعات میں کمیونٹی یا افراد کی ناکامی یہ ہے کہ وہ مثبت سوچ کو اپنانے اور اچھے خیالات یا صلاحیتوں کو آگے بڑھانے میں ناکام رہتے ہیں۔

حوصلہ افزائی کی کمی: چاہے وہ کسی کمیونٹی کے رویے کی بات ہو، اپنے خواب دفن کرنے کا ذکر ہو، یا علامہ اقبال کی فکر، ہر جگہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ لوگوں کو دوسروں کی یا اپنی ہی صلاحیتوں کی قدر نہیں۔

غلط ترجیحات اور نقصاندہ رویے: ان میں یہ بھی واضح ہے کہ کمیونٹیز اور افراد اپنی توانائیاں غیر تعمیری کاموں یا غلط ترجیحات پر صرف کر رہے ہیں۔

اجتماعی زوال: ان تینوں بیانات کا نتیجہ یہ ہے کہ جب ایک فرد یا کمیونٹی اپنی حقیقی اقدار، صلاحیتوں، اور مواقع کو نظرانداز کرتی ہے تو وہ زوال پذیر ہو جاتی ہے۔

نتیجہ:

یہ تینوں مناظر ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ مثبت رویوں کو اپنانا، اپنی اور دوسروں کی خوبیوں کی قدر کرنا، اور اجتماعی طور پر تعمیری کردار ادا کرنا کتنا ضروری ہے۔ اگر یہ رویے نہ بدلے جائیں تو انفرادی اور اجتماعی ترقی ممکن نہیں۔

جب کسی کمیونٹی میں آپ یہ دیکھیں کہ وہ اپنے کسی فرد کی اچھی چیز کو کوئی اھمیت نہ دیتے ھوں اور کسی اپنے فرد کی خراب چیز کو بہت زیادہ اچھالتے ھوں. اور جب اپنے کسی فرد کے متعلق کوئی اچھی یا بری چیز نہ مل سکے. تو خود سے کچھ بنا کر مشہور کر دیں تو ایسی کمیونٹی کس کیٹیگری میں آئے گی.

قبرستان سب سے قیمتی جگہ ھے. امریکہ میں ایک ریسر چ ھوئی تھی کہ زمین کا سب سے قمیتی ٹکڑا کون سا ہے. مہنگے شہروں کے ڈاؤن ٹاؤن مڈل ایسٹ کا تیل سے بھرا علاقہ افریقہ کے وہ علاقے جہاں قیمتی ھیرے جواہرات پائے جاتے ھیں. سب پر ایک ایک کر کے غور کیا گیا نتیجہ کے طور پر جو جگہ فائنل ھوئی وہ قبرستان کا علاقہ تھا. کہ لوگ بڑے بڑے آئیڈیاز لے کر یہاں دفن ھو گئے. انہوں نے ھمت نہ کی کوشش نہ کی جرأت نہ دکھائی کہ وہ اپنے آئیڈیاز کو شیئر کرتے. اور ان کے قریبی لوگوں نے بھی ان کی اس سلسلے میں کوئی حوصلہ افزائی نہ کی کبھی کبھی انسان اس انتظار میں رھتا ھے. کہ کوئی دوسرا اس سے پوچھے تو وہ اپنے دل کا حال بیان کرے.

علامہ محمد اقبال نے اپنے والد صاحب کے ساتھ ایک گفتگو میں یہ کہا.

اس کا افسوس ھے کہ مسلمانان وطن پر عجمی اثرات اس قدر غالب آ چکے ھیں. کہ وہ زھر کو آب حیات سمجھتے ھیں.

اس کا کیا مطلب ھے.

یہ جو تین

Scenarios 

اوپر بیان کیے ھیں کیا ان میں کوئی قدر مشترک ھے.

When you observe a community where they do not value the good qualities of their members, excessively highlight their flaws, and, if they find nothing good or bad about someone, fabricate something and spread it—what category does such a community fall into?

The graveyard is the most valuable place. A research study in America sought to determine the most valuable piece of land on Earth. They considered downtowns in expensive cities, oil-rich regions of the Middle East, and areas in Africa with abundant diamonds and precious stones. After analyzing these, the final conclusion was that the most valuable place is the graveyard. This is because people take their great ideas, dreams, and potential with them to the grave. They lacked the courage, effort, or determination to share their ideas. Even their close ones did not encourage them in this regard. Sometimes, a person waits for someone to ask them, so they can share their innermost thoughts.

Allama Muhammad Iqbal once said to his father:

"It is regrettable that the Muslims of this land have become so overwhelmed by non-Islamic (‘Ajamī) influences that they consider poison to be the elixir of life."

What does this mean?

These three scenarios described above—do they share a common factor?

 علامہ محمد اقبال نے اپنے والد صاحب کے ساتھ ایک گفتگو میں یہ کہا.

اس کا افسوس ھے کہ مسلمانان وطن پر عجمی اثرات اس قدر غالب آ چکے ھیں. کہ وہ زھر کو آب حیات سمجھتے ھیں.

اس کا کیا مطلب ھے.

 علامہ محمد اقبال کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کی زندگیوں پر غیر اسلامی یا عجمی (عرب سے باہر کے) اثرات اتنے زیادہ غالب آ چکے ہیں کہ وہ ان غیر حقیقی یا غیر ضروری چیزوں کو فائدہ مند اور اہم سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ وہ ان کے لیے نقصان دہ ہیں۔


"زہر کو آبِ حیات سمجھنا" ایک گہرا استعارہ ہے، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ لوگ ایسی چیزوں کو اپنانے لگے ہیں جو درحقیقت ان کی دینی اور معاشرتی ترقی کے لیے نقصان دہ ہیں، لیکن وہ ان چیزوں کو فائدہ مند یا ضروری سمجھتے ہیں۔


وضاحت:

عجمی اثرات سے مراد: غیر اسلامی یا غیر دینی روایات، رسم و رواج، اور نظریات جو مسلمانوں کی اصل تعلیمات کے خلاف ہوں۔

اقبال کی فکر: اقبال مسلمانوں کو ان کی اصل اسلامی تعلیمات، خودی، اور اپنی حقیقی شناخت کی طرف واپس لانے کی کوشش کر رہے تھے، کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں نے ان غیر ضروری اثرات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے جو ان کی روحانی، اخلاقی، اور فکری ترقی کے لیے نقصان دہ ہیں۔

نتیجہ:

اقبال چاہتے تھے کہ مسلمان ان اثرات کو پہچانیں اور اپنی اصل اسلامی اقدار، ثقافت، اور خودمختاری کی طرف لوٹ آئیں، تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور خودی کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔

Allama Muhammad Iqbal's statement expresses his regret that the Muslims of the subcontinent had become so deeply influenced by non-Islamic or ‘Ajamī’ (non-Arab) cultural and ideological influences that they started considering harmful things as beneficial and essential for themselves.


The phrase "considering poison as the elixir of life" is a powerful metaphor that signifies how people had embraced ideas, customs, and practices that were actually detrimental to their religious and social progress, yet they perceived them as advantageous or necessary.


Explanation:

‘Ajamī influences: Refers to non-Islamic traditions, customs, and ideologies that were contrary to the original teachings of Islam.

Iqbal's concern: Iqbal was deeply concerned about how Muslims had strayed from their original Islamic teachings, identity, and values by adopting these foreign influences.

Conclusion:

Iqbal’s desire was for Muslims to recognize these harmful influences and return to their true Islamic values, culture, and self-identity to regain their lost dignity, spiritual strength, and intellectual progress.

Allama Muhammad Iqbal, in a conversation with his father, said:

"It is regrettable that the Muslims of the homeland have been so overwhelmingly influenced by non-Arab (‘Ajamī) influences that they consider poison to be the elixir of life."


Meaning:

This statement reflects Iqbal's sorrow over the fact that the Muslims had abandoned their original Islamic teachings and values. They had become so deeply immersed in foreign (non-Islamic or non-Arab) cultural and ideological influences that they began to view harmful practices, traditions, or ideas as beneficial and essential for their lives.

[9:54 a.m., 2025-01-19] M Hussain: Allama Muhammad Iqbal's statement expresses his regret that the Muslims of the subcontinent had become so deeply influenced by non-Islamic or ‘Ajamī’ (non-Arab) cultural and ideological influences that they started considering harmful things as beneficial and essential for themselves.


The phrase "considering poison as the elixir of life" is a powerful metaphor that signifies how people had embraced ideas, customs, and practices that were actually detrimental to their religious and social progress, yet they perceived them as advantageous or necessary.


Explanation:

‘Ajamī influences: Refers to non-Islamic traditions, customs, and ideologies that were contrary to the original teachings of Islam.

Iqbal's concern: Iqbal was deeply concerned about how Muslims had strayed from their original Islamic teachings, identity, and values by adopting these foreign influences.

Conclusion:

Iqbal’s desire was for Muslims to recognize these harmful influences and return to their true Islamic values, culture, and self-identity to regain their lost dignity, spiritual strength, and intellectual progress.


جب ہم تجزیہ کر رھے ھیں کہ 24 سال ٹورنٹو کینیڈا میں ھماری کمیونٹی کو روم فار امپروومنٹ پرکام کرنے کی کتنی ضرورت ہے. تو کمیونٹی افراد کے مجموعے کا نام ھے. افراد جب مضبوط ھوں گے. تو کمیونٹی مضبوط ھو گی. ایک ریسر چ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ھے. کہ %99 لوگ جہاں پر ھوتے ھیں وھاں پر موجود نہیں ھوتے انہوں نے سننے کی مثال دی ھے. کہ لوگ صرف 20% سنتے ھیں ایک گھنٹے کی بات میں صرف بارہ منٹ ھی سنتے ھیں. کھانے پینے میں سونے جاگتے میں بات چیت کرنے میں اور دوسرے معاملاتِ زندگی میں. ھرجگہ تناسب یہی ھے. اس حالت میں رہ رہ کر انہیں بھول ھی گیا ھے. انہیں یاد بھی نہیں کہ سو فیصد موجود ھونا کیا چیز ھوتا ھے. اس کے لیے انہوں نے 

Olympic athletes

 کی مثال دی ھے. کہ جب وہ

 practice

 کرتے ھیں یا مقابلے میں ھوتے ہیں. تو پورے طور پر وہاں موجود ھوتے ھیں. یہ نہیں ھو سکتا کہ وہ بار بار اپنا 

tiktok whatsapp Facebook email

 کا اکاونٹ چیک کر رھے ھوں. عام آدمی خود کو طرح طرح کی

 distractions

 کا شکار بنا لیتا ھے. وقت گزرنے کے ساتھ یہ

 distraction

 جو ھے یہ

 addiction

 کی شکل اختیار کر لیتی ھے. یہاں تک کہ اب اس کے لیے

 distraction 

کے بغیر زندگی مشکل ھو جاتی ہے.

اور یہ قدرت کا اٹل قانون ھے کہ جب تک آپ پوری توجہ سے کام نہیں کرتے آپ کی آؤٹ پٹ متاثر ھوتی رھتی ھے. اپنی توجہ کو

 distraction

 سے بچانے کے لیے ضروری ھے کہ اپنی 

interest

 کا کوئی 

field

 چن لیا جائے. اور پھر اس پر زیادہ سے زیادہ وقت خرچ کیا جائے. آپ اپنی فیلڈ کو وقت کے ساتھ

 Change

 بھی کر سکتے ھیں. اس میں باریک بات یہ ھے. کہ آپ کو وقت کے ساتھ یہ

 skill بھی آ جائےگی. کہ فیلڈ کا انتخاب کیسے کرنا ھے. جیسے جیسے ھم اس skill

 میں مہارت حاصل کر لیں گے. پھر ھمیں دوسروں کو 

explain

 کرنا اور

 training

 دینا بھی آسان ھو جائے گا. خوش قسمتی کی بات یہ ہے. کہ کمیونٹی میں ایسے افراد موجود ھیں. جو اپنی skills 

کو

 share 

کرنے کے لیے آمادہ اور تیار ھیں ھمیں صرف

 ready

 ھونا ھے

. Buckle up

 ھونا ھے. اور بدلتے ھوئے زمانے کے لیے خود کو تیار کرنا ھے.

Comments

Popular posts from this blog

Mobile phone robbed from food delivery person, then climbed on a tall building, and hanged himself

پھوپھی اور ماموں کے کردار کا موازنہ Comparison of the Roles of Paternal Aunt (Phuphi) and Maternal Uncle (Mamu)

Abdullah ibn Umm Maktum, a blind companion of Prophet Muhammad (PBUH); English and Urdu